![]() |
پنجاب کی قدیمی زراعت – ایک گمشدہ دنیا کی جھلک |
پنجاب کی زرخیز زمینیں، قدیم کھیتی باڑی کے منفرد طریقے،
بیل گاڑیوں کی گرج، ہاتھ سے کاٹے گئے کھیت، اور گھر سے آتا گرم روٹی اور مکھن—یہ
سب مل کر ایک ایسی کہانی بُنتے ہیں جسے سن کر دل ماضی میں کھو جاتا ہے۔ یہ کہانی
ہے ایک وقت کی جب پنجاب کی زراعت جدید مشینوں سے نہیں بلکہ محنت، محبت، اور قدرت
کے اصولوں سے چلتی تھی
صبح کا آغاز – جب زمین جاگتی تھی
صبح کا وقت تھا، سورج ابھی پوری طرح نکلا نہیں تھا، لیکن
دیہات کے کسانوں کی زندگی پہلے ہی جاگ چکی تھی۔ مٹی کی خوشبو ہوا میں بسی تھی، اور
کھیتوں کی طرف جانے والے کسان اپنی کاندھوں پر ہل رکھے، بیلوں کی رسی تھامے، دھیرے
دھیرے چل رہے تھے۔ بیلوں کی گھنٹیوں کی مدھم آواز اور دور کہیں کوئل کی کوک پورے
ماحول کو ایک الگ جادوئی رنگ دے رہی تھی۔
چلو پتر، اج دی مٹی بڑا سونا فصل لواوے گی!
دادا جان اپنے جوان بیٹے کو کہہ رہے تھے، جو اپنی نیند
مٹانے کے لیے آنکھوں پر پانی کے چھینٹے مار رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ آج ایک لمبا
دن ہوگا، لیکن محنت کا جذبہ اسے تھکن کا احساس بھی نہیں ہونے دیتا تھا۔
ہل چلانے کا فن – زمین کو زندہ کرنے کا طریقہ
پنجاب کی زمین کو جوتنے کا کام آسان نہ تھا۔ لکڑی کے
روایتی ہل کو بیلوں کی مدد سے زمین میں گھسایا جاتا، اور کسان ایک ہاتھ سے بیلوں
کو ہانکتا اور دوسرے سے ہل کو سنبھالتا۔ زمین نرم ہو جاتی، بیج بونے کے لیے تیار
ہو جاتی، اور ہر لکیر میں امید کی ایک نئی کہانی دفن ہو جاتی۔
یہ محنت کا کھیل تھا، جس میں کسان کی جسمانی طاقت اور
زمین کی زرخیزی کا امتحان ہوتا تھا۔ پسینے کی بوندیں زمین پر گرتیں، جیسے کھیت خود
پانی مانگ رہا ہو۔ فصل کا دارومدار موسم پر ہوتا، اگر بارشیں اچھی ہوتیں تو کسان
خوشحال ہو جاتا، اور اگر قحط آتا تو سب کچھ اللہ کے سپرد ہو جاتا۔
گھر سے آنے والا کھانا – محنت کا اصل انعام
دوپہر کا وقت ہوتا، سورج سروں پر آجاتا، اور کسانوں کی
پیشانیوں پر پسینے کے قطرے چمکنے لگتے۔ بیل بھی سائے میں جا کھڑے ہوتے، اور کھیتوں
کے کنارے لگے درختوں کے نیچے کسانوں کے بیٹھنے کا وقت ہوتا۔ تبھی دور سے کسی عورت
کی آواز آتی:
یہ وہ لمحہ ہوتا جس کا سب کو انتظار ہوتا تھا۔ گھروں سے
تازہ پکی ہوئی مکئی کی روٹی، مکھن کا بڑا سا ٹکڑا، سرسوں کا ساگ، اور ساتھ میں
تازہ لسی یا چھاچھ کھیتوں میں پہنچا دی جاتی۔ یہ کھانا کسی پانچ ستارہ ہوٹل سے کم
نہ ہوتا، کیونکہ اس میں محنت، محبت اور خالص ذائقہ شامل ہوتا تھا۔
کسان اپنے ہاتھوں سے مکئی کی روٹی کو توڑ کر اس پر مکھن
لگاتے، اور جب پہلا نوالہ منہ میں جاتا تو یوں لگتا جیسے ساری تھکن مٹ گئی ہو۔ کچھ
دیر بعد وہ لسی کا ایک بڑا گلاس پی کر تازہ دم ہو جاتے، اور پھر وہی جوش، وہی جذبہ
لیے دوبارہ کام میں لگ جاتے۔
فصل کا موسم – خوشی کا تہوار
مہینوں کی محنت کے بعد جب گندم، چاول، یا مکئی کی فصل تیار
ہوتی تو گاؤں میں ایک خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔ کٹائی کا وقت آتا تو پورا گاؤں کھیتوں
میں نظر آتا۔ مرد درانتی لیے فصل کاٹتے، عورتیں گندم کے گٹھے باندھتی، اور بچے
بھاگ بھاگ کر اناج جمع کرنے میں مدد دیتے۔
شام ہوتے ہی تھریشر نہ ہونے کی وجہ سے کسان ہاتھوں سے
دانے نکالتے، اور رات کو جب سارے کام ختم ہو جاتے تو لوگ ایک جگہ اکٹھے ہو کر گرما
گرم چائے کے ساتھ کھیتوں کی باتیں کرتے۔
یہ وقت جشن کا ہوتا، کیونکہ ہر کسان کی محنت کا صلہ اس
کے ہاتھ میں آچکا ہوتا۔ گھروں میں مٹی کے چولہوں پر گڑ اور دیسی گھی میں بنی روٹیاں،
ساتھ میں تازہ دودھ، اور قہقہوں کی گونج ایک ایسا منظر پیش کرتی کہ لگتا تھا جیسے
پوری کائنات خوش ہے۔
پنجاب کی قدیمی زراعت – ایک کھویا ہوا خزانہ
آج وہ منظر کم نظر آتے ہیں، جہاں کسان زمین کو ہاتھ سے
جوتتے تھے، جہاں بیلوں کی گھنٹیاں فضا میں گونجتی تھیں، جہاں کھیتوں میں گرما گرم
روٹی اور مکھن پہنچایا جاتا تھا، اور جہاں محنت کو سب سے بڑی عبادت سمجھا جاتا
تھا۔
مشینوں نے زمین کے ساتھ انسان کا وہ رشتہ کمزور کر دیا
جو صدیوں سے مضبوط چلا آ رہا تھا۔ لیکن اگر آپ آج بھی کسی پرانے کسان کے پاس بیٹھیں
اور اس سے زراعت کی کہانی سنیں، تو وہ آپ کو ایسے سنائے گا جیسے یہ کل کی بات ہو۔
پنجاب کی زمین آج بھی زرخیز ہے، محنت آج بھی ہوتی ہے، لیکن
وہ محبت، وہ جذبات، اور وہ قدرتی حسن، وہ سب یادوں میں کہیں دفن ہو چکا ہے۔
یہ کہانی صرف ایک کسان کی نہیں، بلکہ پورے پنجاب کی ہے۔
یہ وہ پنجاب ہے جہاں زمین کو ماں سمجھا جاتا تھا، جہاں ہاتھ کی محنت سے دولت اگتی
تھی، اور جہاں کھیتوں میں زندگی سانس لیتی تھی۔
آج بھی اگر ہم اپنے دیہی کلچر کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں،
تو ہمیں اپنی زمین اور اپنے کھانے کی اصل محبت کو پہچاننا ہوگا۔ کیونکہ یہی وہ چیزیں
ہیں جو ہمیں ہماری اصل سے جوڑتی ہیں۔