پنجاب، جو پاکستان کی زرعی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے، نے زراعت کے میدان میں بے پناہ ترقی دیکھی ہے یہ زمین جہاں کبھی کسان ہاتھ سے ہل چلاتے تھے، آج وہاں جدید مشینیں کام کر رہی ہیں۔ لیکن کیا یہ تبدیلی مثبت ہے؟ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ پنجاب کی زراعت کیسے بدلی اور اس کا کسانوں کی زندگی پر کیا اثر پڑا۔
روایتی زراعت کا سنہری دور
پرانے وقتوں میں پنجاب کے
دیہاتوں میں کھیتی باڑی خالصتاً قدرتی طریقوں سے کی جاتی تھی۔ کسان ہاتھ سے بیج
بوتے، ہل چلانے کے لیے بیلوں کا استعمال کرتے، اور پانی کے لیے کنویں کھودتے۔
عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کھیتوں میں کام کرتیں، گھاس کاٹتیں اور فصل اکٹھا
کرتیں۔ کھیتوں میں پسینے کی خوشبو اور مٹی کی سوندھی مہک کسان کی محنت کی پہچان
تھی۔
دیہاتی کھانے کا رنگ
پرانے وقتوں میں کھیتوں
میں کام کرنے والے کسانوں کے لیے کھانے کی خاص اہمیت تھی۔ مٹی کے چولہوں پر پکنے
والی مکئی کی روٹی، سرسوں کا ساگ، دیسی گھی اور لسی کسان کی طاقت کا راز ہوا کرتی
تھی۔ عورتیں گھروں سے کھانے تیار کرکے کھیتوں میں لے کر آتی تھیں، جہاں سب اکٹھے
بیٹھ کر کھاتے اور اپنی محنت سے خوش ہوتے۔
جدید زراعت کی حقیقت
وقت بدلا، نئی ٹیکنالوجی
آئی اور زراعت کا انداز بھی بدل گیا۔ اب ہاتھ کے ہل کی جگہ ٹریکٹر نے لے لی، نہری
نظام جدید ہو گیا، اور بیج، کھاد اور اسپرے کی مدد سے پیداوار کئی گنا بڑھ گئی۔ کم
وقت میں زیادہ پیداوار حاصل ہونے لگی، مگر اس کے ساتھ ہی کئی چیلنج بھی پیدا ہوئے۔
نیا چیلنج: کسان کی مشکلات
نئی ٹیکنالوجی نے جہاں
کسانوں کے لیے کام آسان کیا، وہیں مہنگی کھاد، بیج اور پانی کی قلت جیسے مسائل نے
انہیں قرض کے بوجھ تلے دبا دیا۔ دیسی بیجوں کی جگہ ہائی بریڈ بیج آ گئے، جس سے
زمین کی زرخیزی متاثر ہونے لگی۔
پنجاب کی زراعت ایک
تاریخی ورثہ ہے جو آج جدید دنیا میں اپنی بقا کے لیے لڑ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا
ہم جدیدیت کے ساتھ اپنی زراعت کی اصل روح کو بچا سکتے ہیں؟ پرانی اور نئی زراعت کے
اس امتزاج میں ہمیں ایسی راہ نکالنی ہوگی جو کسان کی فلاح اور زمین کی صحت دونوں
کے لیے فائدہ مند ہو۔