دیہاتی زندگی میں خاندانی نظام اور بزرگوں کا کردار – وقت کے دریچوں سے ایک جھلک

Pk 360 job
0

 

دیہاتی زندگی میں خاندانی نظام اور بزرگوں کا کردار – وقت کے دریچوں سے ایک جھلک

جب سورج کی پہلی کرن دھرتی کے سینے پر چمکتی ہے، تو پنجاب کے کسی گاؤں میں مٹی کی خوشبو سے مہکتی گلیاں، نیم کے درختوں کے نیچے بچھے چارپائیاں، اور حقے کی گُڑگُڑاہٹ میں زندگی کے رازوں پر ہونے والی گفتگو، ایک ایسی تصویر کھینچتی ہے جو دیہاتی زندگی کے خاندانی نظام کی بنیادوں کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔


یہاں زندگی صرف فرد کی نہیں، بلکہ پورے خاندان کی کہانی ہے۔ ہر گھر ایک چھوٹا سا قلعہ، اور ہر قلعے کا ایک بادشاہ—دادا یا پردادا—جو تجربے، دانش اور محبت کا ایسا مرکب ہے جس پر پورا خاندان ناز کرتا ہے۔


بزرگوں کا حکم، خاندانی نظام کی ریڑھ کی ہڈی

گاؤں کی چوپال ہو یا آنگن میں بچھا ٹاٹ، فیصلے وہیں ہوتے ہیں جہاں سفید ریش بزرگ اپنی لاٹھی تھامے بیٹھے ہوں۔ یہ فیصلے نہ صرف زمینوں کے بٹوارے کے ہوتے ہیں بلکہ زندگی کے بڑے اصولوں کا تعین بھی یہیں کیا جاتا ہے۔ اگر گھر میں کوئی مسئلہ ہو، تو بزرگ ہی وہ سایہ ہوتے ہیں جو سب کو سمیٹ لیتے ہیں۔


گھر کا سب سے بڑا فرد پورے خاندان کا سرپرست ہوتا ہے۔ شادی بیاہ سے لے کر روزمرہ کے معمولات تک، ہر چھوٹے بڑے فیصلے میں ان کی رائے کو مقدم جانا جاتا ہے۔ دلہن کے گھر آنے کی رسم ہو یا فصل کاٹنے کا وقت، دادا جی کی ایک نظر سب معاملات طے کر دیتی ہے۔

 

روایتی محبت اور حکمت کے خزانے

بزرگ صرف فیصلے کرنے والے نہیں ہوتے، وہ زندگی کے کہانی گو بھی ہوتے ہیں۔ رات کے وقت، جب پورا خاندان کھلی چھت پر لیٹا ہوتا ہے، تو دادی اماں کی نرم آواز میں سنائی جانے والی لوک کہانیاں، بچوں کے دلوں میں اخلاقیات، محبت اور بہادری کے بیج بوتی ہیں۔


یہی بزرگ وہ ہوتے ہیں جو بچوں کو اخلاقیات سکھاتے ہیں، زمین کے حق اور مزدور کی عظمت کے قصے سناتے ہیں۔ بچپن میں زمین پر بیٹھ کر ہاتھ سے کھانا کھانے کا سلیقہ بھی یہیں سکھایا جاتا ہے اور رشتہ داروں کے احترام کا درس بھی۔

 

دیہاتی زندگی میں بدلتا خاندانی نظام

مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ روایتی نظام کمزور پڑ رہا ہے۔ شہروں کی کشش اور جدید طرزِ زندگی نے جوائنٹ فیملی سسٹم کو بکھیرنا شروع کر دیا ہے۔ وہ چوپال جہاں فیصلے ہوتے تھے، اب خاموش ہو چکی ہے۔ دادا جی کی وہ کرسی جو کبھی گھر کا مرکزی نکتہ ہوا کرتی تھی، اب کونے میں پڑی رہتی ہے۔


پہلے جو خاندان ایک چھت کے نیچے کئی نسلوں کا گھر ہوتا تھا، آج وہ الگ الگ گھروں میں بٹ چکا ہے۔ بزرگ جو کبھی پورے خاندان کے لیے ایک سایہ دار درخت کی مانند تھے، آج اکثر تنہائی کی چادر میں لپٹے رہتے ہیں۔

 

کیا ہم واپس پلٹ سکتے ہیں؟

یہ سوال اہم ہے کہ کیا جدید دور میں بھی دیہاتی زندگی کا وہ پرانا خاندانی نظام بچایا جا سکتا ہے؟ شاید مکمل طور پر نہیں، لیکن اگر ہم بزرگوں کی عزت اور ان کے تجربے سے سیکھنے کی روایت کو زندہ رکھیں، تو یہ نظام آج بھی زندہ رہ سکتا ہے۔

 

دیہاتی زندگی کے خاندانی نظام میں بزرگوں کی حیثیت صرف فیصلے کرنے والوں کی نہیں، بلکہ محبت، حکمت اور صدیوں پرانی روایات کے امین کی ہے۔ اگر یہ نظام مکمل طور پر ٹوٹ گیا، تو شاید ہم وہ کہانیاں، وہ نصیحتیں اور وہ خاندانی رشتے بھی کھو دیں، جو دیہاتی زندگی کا اصل حسن ہیں۔


Read More

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !