پنجاب کے روایتی دیہات
ایک زمانے میں محبت، سادگی، بھائی چارے اور قدرتی حسن کی مثال ہوا کرتے تھے۔ مٹی
کے کچے گھر، چوپال میں بیٹھے بزرگ، گلیوں میں کھیلتے بچے، کھیتوں میں کام کرتی
عورتیں، یہ سب مل کر ایک جیتی جاگتی تصویر بناتے تھے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ جدیدیت
نے ان قدیم دیہاتوں کے حسن کو دھندلا کر دیا۔ آج ہم انہی کھوئے ہوئے دیہاتی رنگوں
کی ایک جھلک دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دیہاتی زندگی کی سادگی اور حسن
کبھی پنجاب کے دیہاتوں میں صبح کی اذان کے ساتھ زندگی جاگتی تھی۔
مائیں چولہوں پر تازہ پراٹھے بناتیں، مرد کھیتوں کا رخ کرتے، اور بچے مدرسے یا
مکتب میں قرآن پڑھنے جاتے۔ شام کے وقت گھروں کے آنگن میں لالٹین کی روشنی میں
کہانیاں سنائی جاتیں۔ ہر گلی اور محلے میں اپنائیت اور محبت نظر آتی۔
چوپال اور بیٹھک کا کلچر
دیہاتی زندگی میں چوپال یا بیٹھک ایک مرکز ہوا کرتی تھی، جہاں بزرگ
اپنی روایتی کرسیوں پر بیٹھ کر دن بھر کی باتیں کرتے، مسئلے حل ہوتے، اور نوجوان
نسل کو دیہی ثقافت اور اقدار سکھائی جاتیں۔ چوپال محض گپ شپ کی جگہ نہیں تھی، بلکہ
ایک کمیونٹی سینٹر تھا جہاں سب کے دکھ سکھ سانجھے کیے جاتے۔
قدیم دیہاتوں کے کھوئے ہوئے رنگ
کچے گھر اور کھلی گلیاں
پہلے ہر دیہات میں مٹی اور گارے سے بنے کچے گھر ہوتے تھے، جو قدرتی
طور پر گرمیوں میں ٹھنڈے اور سردیوں میں گرم رہتے۔ ہر گھر کے آگے کھلی گلیاں ہوتی
تھیں جہاں بچے کھیلتے، بزرگ حقہ پیتے اور مہمانوں کی خاطر داری ہوتی۔ آج پکے گھروں
اور بند دروازوں نے وہ پرانی کشادگی چھین لی ہے۔
گڈریا اور دودھ دہی کی روایات
دیہاتوں میں گوالے صبح صبح دودھ لے کر گھروں میں آتے، دہی، مکھن اور
لسی ہر کھانے کا لازمی حصہ ہوتا۔ آج کل پیکٹ والے دودھ نے ان قدرتی اور خالص چیزوں
کی جگہ لے لی ہے۔
میلوں اور تہواروں کا جشن
پہلے ہر گاؤں میں سالانہ میلے لگتے، جہاں کبڈی، دنگل، اور گھوڑوں کی
دوڑ ہوتی۔ بچے چرخے، جھولے اور موت کے کنویں کے کرتب دیکھنے جاتے۔ آج کے جدید طرز
زندگی میں وہ میلے اب خال خال ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
دیہاتی مہمان نوازی
گاؤں میں مہمان آتا تو پورا محلہ استقبال کرتا، ہر گھر سے کھانے کی
چیزیں آتیں، کوئی تازہ گڑ لے آتا، کوئی دیسی گھی۔ اب شہروں کی طرح دیہات میں بھی
مہمان نوازی محدود ہوتی جا رہی ہے۔
دیہات اب ویسے نہیں رہے.
پنجاب کے قدیم دیہات اب ویسے نہیں رہے جیسے کبھی ہوا کرتے تھے۔ وقت
کے ساتھ بہت سی روایات ماند پڑ گئیں، رہن سہن بدل گیا، اور دیہاتی ثقافت جدید طرز
زندگی کے دباؤ میں آ گئی۔ لیکن پھر بھی، اگر ہم اپنی جڑوں سے جڑے رہیں اور اپنی
روایات کو زندہ رکھیں تو شاید یہ کھویا ہوا حسن دوبارہ زندہ ہو سکے۔